جب سے تم غزلوں کے محور ہو گئے
میرے سارے شعر خود سر ہو گئے
پھول جیسے ہاتھ میں لے کر گلاب
اُس نے یوں دیکھا کہ پتھّر ہو گئے
سر اٹھا کر ظالموں سے بات کی
آج ہم اپنے برابر ہو گئے
توڑ دو گے خود فریبی کا حصار
خود کو تم جس دن میسّر ہو گئے
رفتہ رفتہ گر گئے بوڑھے شجر
ننھے پودے جب تناور ہو گئے
دل میں جب روشن ہوا اُس کا وجود
ذہن و دل راغبؔ منوّر ہو گئے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو