تِرا مشورہ ہے بجا مگر میں رکھوں گا اپنا خیال کیا
مِرا دل کسی پہ ہے آگیا مِرا حال ہوگا بحال کیا
کوئی تیٖر دل میں اتار دو کسی روز جان سے مار دو
کوئی مجھ پہ اتنا ستم کرے کسی اور کی ہے مجال کیا
تِرے دل میں کون سی بات ہے مجھے کیا خبر مِرے کم سخن
مِرے کج ادا مجھے کیا پتا تِرے ذہن میں ہے سوال کیا
کہاں عقل کو یہ شعور ہے کہ جنوں کی بات سمجھ سکے
کسی روز عشق سے پوچھیے کہ بلا ہے حسن و جمال کیا
میں جنوں کی حد سے گزر گیا تو خرد نے سب سے یہی کہا
جسے اپنی کوئی خبر نہیں اُسے دوسروں کا خیال کیا
مِرے خیر خواہوں کو ہے گلہ کہ میں کن کا شکر گزار ہوں
مجھے دشمنوں سے بھنک لگی مِرے دوستوں کی تھی چال کیا
تِری ساری بخشش و فضل پر میں سراپا شکر و سپاس ہوں
مِرے دل میں صبر و قرار ہے مجھے ہو گا رنج و ملال کیا
اکتوبر ۲۰۱۰ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت