پھر ضد پہ اَڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
طوفاں سے لڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
توسیع ہو رہی ہے رہِ اعتبار کی
رستے میں پڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
خوفِ ہَوا سے یا کہ بصد شوق و اضطراب
ماتھا رگڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
اکڑے ہوئے درختوں کے انجام سے بھی کچھ
عبرت پکڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
شاخوں نے اتنا ڈال دیا بارِ اعتبار
جڑ سے اُکھڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
راغبؔ یہ لگ رہا ہے کہ ٹوٹے گی کوئی شاخ
پھر سے اکڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
جولائی ۲۰۱۳ءغیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت