پھر اُٹھایا جاؤں

غزل
پھر اُٹھایا جاؤں گا مٹی میں مِل جانے کے بعد
گرچہ ہوں سہما ہوا بنیاد ہِل جانے کے بعد
آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے
آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دِل جانے کے بعد
سخت جانی کی بدولت اب بھی ہم ہیں تازہ دم
خشک ہو جاتے ہیں ورنہ پیڑ ہِل جانے کے بعد
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد
فکر لاحق ہے ہمیشہ مثلِ تُخمِ ناتواں
حشر کیا ہوگا درونِ آب و گِل جانے کے بعد
اس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغبؔ مجھے
جیسے کوئی آگیا ہو مستقل جانے کے بعد
دسمبر ۲۰۱۱ءطرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *