بزمِ سخن میں خود کو ناچار لے کے آئے
نادر خیال روشن افکار لے کے آئے
فرقت کے زخم دل پر اِس سے کہیں سوا ہیں
ہم ساتھ جتنے ڈالر دینار لے کے آئے
پھر حرفِ یاس لے کر لوٹے تِری گلی سے
کیوں دل میں آرزوے دیدار لے کے آئے
خوش فہم دل کی ضد پر جب جب وہاں گئے ہم
دو چار زخم تازہ ہر بار لے کے آئے
اُس پار جا چکے جو دریائے زندگی کے
کوئی نہیں جو اُن کو اِس پار لے کے آئے
سب ظلمتوں پہ چھائی ہر سمت جگمگائی
وہ روشنی جو میرے سرکارؐ لے کے آئے
راغبؔ تمام خبریں ہوں گی اُسی طرح کی
پتھّر بنا کے دل کو اخبار لے کے آئے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ