ان کی چالوں کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے
یعنی ہم لوگوں کو بھی چالاک ہونا چاہیے
جسم کی پاکیزگی کی منزلت اپنی جگہ
جسم کے جیسا ہی دل کو پاک ہونا چاہیے
محوِ حیرت ہے جنوں کیسی ہے یہ دیوانگی
جب گریباں ہے تو اس کو چاک ہونا چاہیے
پردہ داری ، عیب پوشی اور حفاظت جسم کی
ایک دوجے کی ہمیں پوشاک ہونا چاہیے
دیکھ کر مکر و دغا ، جور و جفا ، ظلم و ستم
دیدۂ احساس کو نمناک ہونا چاہیے
ہاتھ ہی کٹ جائے یا دھونا پڑے جاں ہی سے ہاتھ
شاعر و فنکار کو بے باک ہونا چاہیے
روندتا پھرتا ہے کون اہلِ زمیں کو اے خدا
کس کو نذرِ گردشِ افلاک ہونا چاہیے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ