اُس نے لوگوں سے

غزل
اُس نے لوگوں سے سنا ایسا کیا
اے خدا میں نے کہا ایسا کیا
ذہن قابو میں نہ دل بس میں ہے
کیا کہوں آج ہُوا ایسا کیا
محوِ حیرت ہیں مسلسل آنکھیں
اُس نے آنکھوں سے کہا ایسا کیا
اُن کے ایوان میں سچ بول دیا
اور کہتے ہو کیا ایسا کیا
میری بے چینی سے اندازہ کر
اُن کے انداز میں تھا ایسا کیا
جس پہ مرتا ہے تُو اتنا راغبؔ
اُس میں آخر ہے بتا ایسا کیا
دسمبر ۲۰۱۲ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *