اُس نے الفت کی یوں لگائی آگ
لگ گئی دل میں کیمیائی آگ
بچ کے رہنے میں ہی بھلائی ہے
خواہ اپنی ہو یا پرائی آگ
تیز بارش، ہوا، ٹھِٹھرتے دل
کچّی لکڑی، دِیا سلائی، آگ
جل گیا سب مگر دھواں نہ اُٹھا
اُس نے کچھ اِس طرح لگائی آگ
خوب ہوتا ہے محوِ رقص دھواں
خوب کرتی ہے خود نمائی آگ
یاد آئے وہ وادیِ ایمن
دے کہیں دور جب دکھائی آگ
دشت میں آس کی کرن چمکی
کر دے شاید کہ رہ نمائی آگ
آگ آئے نہ اُس کے آگے کیوں
عمر بھر جس نے ہے کمائی آگ
آج بھی اپنی انتہا پر ہے
دل کے اندر وہ ابتدائی آگ
اس کی فطرت ہے جب یہی راغبؔ
کیوں دِکھائے نہ کج ادائی آگ
ستمبر ۲۰۱۳ءغیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت