اِس طرح تھا اندھیروں کا مارا ہوا نصیب
سورج ہوا نصیب نہ تارا ہوا نصیب
کیسا فلک نصیب ہمارا ہوا نصیب
’’چلمن سے اُس پری کا نظارا ہوا نصیب‘‘
آخر کو غرق ہو گیا آنکھوں کی جھیٖل میں
پلکوں کا تیری گرچہ سہارا ہوا نصیب
تم اپنے ہاتھ پانو ہلاتے نہ تھے کبھی
اب مت کہو کہ ہم کو خسارا ہوا نصیب
آنکھیں مِری چمک اُٹھیں چہرہ دمک اُٹھا
چاہت کا جب کسی کی اشارا ہوا نصیب
وہ کتنے خوش نصیب ہیں جن کو نصیب ہے
دستِ کرم سے تیرے سنوارا ہوا نصیب
روشن ہے جس کے دم سے ہر اک گوشۂ حیات
اک ایسا روشنی کا منارا ہوا نصیب
راغبؔ کے اعتماد کا عالم ہی اور ہے
جس دن سے اعتماد تمھارا ہوا نصیب
جون ۲۰۱۲ءطرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت