آپ سے رہ کر الگ

غزل
آپ سے رہ کر الگ ممکن گزارا ہے کہاں
گھُٹ کے مرنے کے سوا اب کوئی چارا ہے کہاں
ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل پر اُس نے ایک بار
کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں
اہلِ دل کو کیوں نظر آتی نہیں اُس کی چمک
اے محبت تیری قسمت کا ستارا ہے کہاں
کھِل کھِلا کر ہنس رہے ہیں ہم پہ یہ گملے کے پھول
کس سے پوچھیں کیا بتائیں گھر ہمارا ہے کہاں
تم کو کیا معلوم کیسی آگ میں جلتا ہوں میں
دل کسی شعلہ ادا پر تم نے وار ا ہے کہاں
اُن کے دم سے کس قدر پُر نور ہے دنیاے دل
اُن کے جیسا روشنی کا استعارا ہے کہاں
برگِ آوارہ ہوں راغبؔ در بہ در پھرتا ہوں میں
میرے جیسا مضطرب اور غم کا مارا ہے کہاں
اکتوبر ۲۰۱۲ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *