آر سے پار نہیں نکلا

آر سے پار نہیں نکلا
عکسِ دیوار سے نہیں نکلا

شہر بنتے گئے مگر انساں
آج تک غار سے نہیں نکلا

اُس کنویں میں پڑا ہوا صندوق
ایک دو چار سے نہیں نکلا

میں بہت سامنے ہوا اُس کے
وہ حسیں کار سے نہیں نکلا

ایک موتی سا خواب شب بھر میں
چشمِ بیدار سے نہیں نکلا

لوگ کاموں پہ جا رہے ہیں نسیم
گھر سے اتوار نہیں نکلا

افتخار نسیم

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *