تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو
بھولنے پائے نہ اُس دشت کو وحشت دل سے
شہر کے بیچ رہو باغ میں آہو رکھو
خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا کی طرح
کچھ بچا کر بھی تو اس آنکھ میں آنسو رکھو
روشنی ہو گی تو آ جائیگا رہرو دل کا
اسکی یادوں کے دیے طاق میں ہر سُو رکھو
یاد آئیگی تمہاری ہی سفر میں اسکو
اسکے رومال میں اِک اچھی سی خوشبو رکھو
اب وہ محبوب نہیں اپنا، مگر دوست تو ہے
اُس سے یہ ایک تعلق ہی بہر سُو رکھو
افتخار نسیم