جانے رخ کیوں موڑ گیا وہ
اک ذرا سی بات کی خاطر
سارے رشتے توڑ گیا وہ
وصل کی شب وہ پیار جتا کر
ہجر سے ناطہ جوڑ گیا وہ
جانے کس کس بات پہ کل پھر
اپنی قسمت پھوڑ گیا وہ
گیلے کپڑے کی صورت ہیں
دھوپ میں ہم کو چھوڑ گیا وہ
جانے کون حسن شاخوں پر
اپنا خون نچوڑ گیا وہ
حسن رضوی