ہاں دیکھا کل ہم نے اس کو، دیکھنے کا جسے ارماں تھا

ہاں دیکھا کل ہم نے اس کو، دیکھنے کا جسے ارماں تھا
وہ جو اپنے شہر سے آگے، قریۂ باغ و بہاراں تھا
سوچ رہاہوں جنگ سے پہلے، جھلسی سی اس بستی میں
کیسا کیسا گھر کا مالک، کیسا کیسا مہماں تھا
سب گلیوں میں ترنجن تھے اور ہر ترنجن میں سکھیاں تھیں
سب کے جی میں آنے والی کل کا شوقِ فراواں تھا
میلوں ٹھیلوں، باجوں گاجوں باراتوں کی دھومیں تھیں
آج کوئی دیکھے تو سمجھے، یہ تو سدا بیاباں تھا
چاروں جانب ٹھنڈے چولہے، اجڑے اجڑے آنگن ہیں
ورنہ ہر گھر میں تھے کمرے، ہر کمرے میں ساماں تھا
اجلی اور پر نور شبیہیں روز نماز کو آتی تھیں
مسجد کے ان طاقوں میں بھی کیا کیا دیا فروزاں تھا
اجڑی منڈی، لاغر کتے، ٹوٹے کھمبے، خالی کھیت
کیا اس نہر کے پل کے آگے ایسا شہر خموشاں تھا؟
آج کہ اک روٹی کی خاطر کارڈ دکھاتا پھرتا ہے
پورے کیمپ کو روئی دے دے ایسا ایسا دہقاں تھا
تاب نہیں ہر ایک سے پوچھیں، بابا تجھ پر کیا گزری
اک کو روک کے پوچھا ہم نے، سینہ اس کا بریاں تھا
بولا،لوگ تو آئیں جائیں بستی کو پھر بسنا ہے
میرے ہی تنکوں کی خاطر آیا سارا طوفاں تھا
آگ کے اندر اور تپش تھی، آگ کے باہر اور ہی آنچ
شاید کوئی دوانا ہو گا بے شک چاک گریباں تھا
شیر محمد خان (ابن انشا)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *