کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا
ہم بھی وہیں موجودتھے، ہم سےبھی سب پوچھاکیے
ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا
اس شہرمیںکس سے ملیں؟ ہم سےتو چھوٹیںمحفلیں
ہر شخص ترا نام لے، ہر شخص دیوانہ ترا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری، صحرا ترا
ہم اور رسم بندگی، آشفتگی، افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا، اے حسنِ بے پروا ترا
دو اشک جانے کس لیے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری، اکرام کا دریا ترا
اے بے دریغ و بے اماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا ترا
ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیر رہگزر
رستہ کبھی روکا ترا؟ دامن کبھی تھاما ترا؟
ہاں ہاں تری صورت حسیں، لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے ، شہرہ ہوا کیا کیا ترا
بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا، رسوا ترا، شاعر ترا، انشا ترا
شیر محمد خان( ابن انشا)