بت ملے تو خدا نہیں ملتا
منزل آخری ہے قبر مری
اب کوئی راستہ نہیں ملتا
خوگر ظلم ہو گیا ایسا
مجھ کو لطف وفا نہیں ملتا
نگہ یاس سے کسے دیکھوں
دل درد آشنا نہیں ملتا
بات اتنی نہ عمر بھر سمجھے
کیا ملا اور کیا نہیں ملتا
جس کو جاوید اس نے کھویا ہے
اسی دل کا پتا نہیں ملتا
جاوید لکھنوی