کبھی بجھائے چراغ اور کبھی جلائے چراغ
وہ بجھتے دل کو نہ دیکھیں کسی کے خوب ہے یہ
وہ منہ کو پھیر لیں جس وقت جھلملائے چراغ
لحد پہ چل کے ہوا گر بجھاتی ہے تو بجھائے
تمہارا ہو چکا احساں کہ خود جلائے چراغ
لحد پہ بوئے وفا آ رہی تھی وقت سحر
کہیں کہیں جو پڑے ہیں جلے جلائے چراغ
اک آہ گرم سے تربت میں کام لینے دو
یوں ہی جلائے اسی طرح سے بجھائے چراغ
جو تھا تو بس وہی دل سوز بھی تھا اے جاوید
کسی نے دل نہ جلایا یہاں سوائے چراغ
جاوید لکھنوی