آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے

آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے
چارہ گر گھبرا کے اف اف کی صدا دینے لگے

اب کہاں تھا میں جو دیتا اس محبت کا جواب
جس کی تربت دیکھ لی مجھ کو صدا دینے لگے

دامن صبر و تحمل ہاتھ سے خود چھٹ گیا
ٹوٹ کر زخموں کے ٹانکے جب صدا دینے لگے

ہجر کی راتوں کے سناٹے میں اف ری بے خودی
ہم دل گم گشتہ کو اپنی صدا دینے لگے

ہاتھ بھی گھبرا کے میں نے قلب نازک پر رکھے
جب ذرا سی چوٹ میں شیشے صدا دینے لگے

جانکنی کا وقت بھی باقی رہے تم بھی رہو
دیکھنے آئے تو کیا اچھی دغا دینے لگے

میکدے میں ہم سے مستوں کی خوشی کیا رنج کیا
مل گئے دو چار ساغر اور دعا دینے لگے

منحصر مرنے پہ ہو جب صورت تسکین دل
کوسنا میں اس کو سمجھوں جو دعا دینے لگے

ظالم و مظلوم کا محفل میں کل نکلا تھا ذکر
وہ ہمارا اور ہم ان کا پتا دینے لگے

مرنے والے پھر نہ اے جاوید کھولیں اپنی آنکھ
گر قسم بڑھتی ہوئی ان کی حیا دینے لگے

جاوید لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *