سیکھا نہیں جاتا ہے مگر سیکھ رہے ہیں
کل ہم کو بھی اس بزم سے کچھ کام پڑا ہے
اس بزم کے آدابِ نظر سیکھ رہے ہیں
ایسا نہ ہو ویران ہو جائے دوبارہ
کیسے کوئی بنتا ہے نگر سیکھ رہے ہیں
آشفتہ سری، سنگ ملامت، دل پرخوں
اس شہر میں جینے کا ہنر سیکھ رہے ہیں
شاہد رضوی