شام ہی سے یہ در و بام بجھے جاتے ہیں
روشنی داغ جگر میں نہیں اب باقی کوئی
ہم نے جو پائے تھے انعام بجھے جاتے ہی
نہ کرن کوئی امیدوں کی نہ دن باقی ہے
دل نے پھیلائے تھے جو دام بجھے جاتے ہیں
میکدہ تو سدا روشن ہی رہا کرتا ہے
بات یہ ہے کہ مرے جام بجھے جاتے ہیں
مشعل لذت آلام کی ضو ختم ہوئی
ہم پہ جو آئے تھے الزام بجھے جاتے ہیں
حرف اشکوں کی روانی میں بہے جاتے ہیں
یورش شب ہے کہ سب نام بجھے جاتے ہیں
شاہد رضوی