نہ جانے کیسے ترا انتظار رک سا گیا
غریب شہر نے جب سے یہاں صدا دی ہے
امیر شہر کا کچھ کاروبار رک سا گیا ہے
بسا غنیمت ہے یہ بھی فریب پیہم میں
جنوں عشق کا کچھ اعتبار رک سا گیا
امیدِ شوق سرِ صحن گلستاں کم ہے
کہیں پہ قافلئہ نوبہار رک سا گیا
خبر تو لائو کہ اہلِ جنوں پہ کیا گزری
کوئی غبار سرکوئے یار رک سا گیا
رہِ اُمید وعمل کی تلاش میں اکثر
ہوا ہے یوں کہ مرا اختیار رک سا گیا
شاہد رضوی