منزلیں ایسی ملی ہیں کہ سفر ضائع کیا
شعر بے ربطی افکار سے بوجھل ٹھہرے
ناز تھا جس پہ وہ اندازِ نظر ضائع کیا
تختہ گل میں لہو رنگ ہے کانٹوں کی بہار
جانے کیا سوچ کے یہ خون جگر ضائع کیا
اپنی اُمیدوں کو خود آگ لگا دی ہم نے
دل میں برسوں سے جو پالا تھا شرر ضائع کیا
آپ کو راہ گزر چاہیے تھی سو ہم نے
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر ضائع کیا
شاہد رضوی