وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا ایک میل فنا
سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرمِ خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
یہاں تک تو آ گئے آپ کی محبت میں
اب اور کتنا گنہگار کرنا چاہتے ہیں
گل امید فروزاں رہے تری خوشبو
کہ لوگ اسے بھی گرفتار کرنا چاہتے ہیں
اٹھائے پھرتے ہیں کب سے عذاب دربدری
اب اس کو وقف رہِ یار کرنا چاہتے ہیں
جہاں کہانی میں قاتل بری ہوا ہے ، وہاں
ہم اک گواہ کا کردار کرنا چاہتے ہیں
سلیم کوثر