کہ میرا دل تو مری مٹھیوں میں رہتا ہے
میں اپنے ہاتھ سے دل کا گلا دبا دوں گی
مرے خلاف یہی سازشوں میں رہتا ہے
اڑان جس کی ہمیشہ سے جارحانہ رہی
وہ آج میری طرح بے پروں میں رہتا ہے
الائو بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
ترا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے
بچا کے خود کو گزرنا محال لگتا ہے
تمام شہر مرے راستوں میں رہتا ہے
مری کتابِِ محبت میں اس کا ذکر نہیں
وہ خوش خیال غلط فہمیوں میں رہتا ہے
نوشی گیلانی