کس دل میں اترنا تھا
چمکنا تھا کن آنکھوں میں
کہاں پر پھول بننا تھا
تو کب خوشو کیصورت کوئےجاناں سے گزرنا تھا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا
کہاں شامیں گزرنا تھیں
کہاں مہتاب راتوں میں کسی کو یاد کرنا تھا
کسی کو بھول جانا تھا
کہاں پر صبح کا آغاز کرنا تھا کہاں سورج نکلنا تھا
سفر کے دشت میں تنہا تھکے ہارے مسافر کو
کہاں خیمہ لگانا تھا
کہاں دریا میں کشتی ڈالنا تھی اور کس ساحل اُترنا تھا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا
نوشی گیلانی