دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
نہ دوا چاہیے مجھے نہ دعا
کاش اپنی دوا کرے کوئی
مفلسی میں مزاج شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے
وہم کی کیا دوا کرے کوئی
ہنس بھی لیتا ہوں اوپری دل سے
جی نہ بہلے تو کیا کرے کوئی
موت بھی آ سکی نہ منھ مانگی
اور کیا التجا کرے کوئی
درد دل پھر کہیں نہ کروٹ لے
اب نہ چونکے خدا کرے کوئی
عشق بازی کی انتہا معلوم
شوق سے ابتدا کرے کوئی
کوہ کن اور کیا بنا لیتا
بن کے بگڑے تو کیا کرے کوئی
اپنے دم کی ہے روشنی ساری
دیدۂ دل تو وا کرے کوئی
شمع کیا شمع کا اجالا کیا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی
غالب اور میرزا یگانہ کا
آج کیا فیصلہ کرے کوئی
یاس یگانہ چنگیزی