مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی

مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی
چراغ بجھ بھی گیا روشنی سفر میں رہی

رہ حیات کی ہر کشمکش پہ بھاری ہے
وہ بیکلی جو ترے عہد مختصر میں رہی

خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے
اداسی تھی کہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہی

ہمارے نام کی حق دار کس طرح ٹھہرے
وہ زندگی جو مسلسل ترے اثر میں رہی

نئی اڑان کا رستہ دکھا رہی ہے ہمیں
وہ گرد پچھلے سفر کی جو بال و پر میں رہی

یاسمین حمید

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *