رات کا آخری لمحہ بھی گزرنے کو ہے
خشت در خشت عقیدت نے بنایا جس کو
ابر آزار اسی گھر پہ ٹھہرنے کو ہے
کشت برباد سے تجدید وفا کر دیکھو
اب تو دریاؤں کا پانی بھی اترنے کو ہے
اپنی آنکھوں میں وہی عکس لیے پھرتے ہیں
جیسے آئینۂ مقسوم سنورنے کو ہے
جو ڈبوئے گی نہ پہنچائے گی ساحل پہ ہمیں
اب وہی موج سمندر سے ابھرنے کو ہے
کنج تنہائی میں کھلتا ہے تخیل میرا
اور میں خوش ہوں کہ یہ گل پھر سے نکھرنے کو ہے
یاسمین حمید