آنے والے آ رہے ہیں اپنی منزل کی طرف
ڈوبنے والے کی مایوسی پہ دل تھرا گیا
کس نگاہ یاس سے دیکھا تھا ساحل کی طرف
سچ ہے اک اجڑی ہوئی دنیا کے کیا لیل و نہار
تم سے بھی اب تو نہ دیکھا جائے گا دل کی طرف
کس فسردہ خاطری سے رات بھر جلتی رہی
دیر تک دیکھا کیے ہم شمع محفل کی طرف
اپنی مرضی سے نہیں اپنے ارادے سے نہیں
ہر مسافر کے قدم اٹھتے ہیں منزل کی طرف
تم کو کیا معلوم کیا بنتی ہے دل پر عشق میں
آئنہ لے کر ذرا دیکھو مقابل کی طرف
ہو گیا مخمور راز زندگی کا انکشاف
موج آتی ہے فنا ہونے کو ساحل کی طرف
مخمور دہلوی