جسم سے اپنے کبھی سایہ جدا ہوتا نہیں
اس طرح فریاد کرنے کو کلیجہ چاہئے
اب کوئی گلشن میں میرا ہم نوا ہوتا نہیں
وہ محبت آفریں دیتا ہے حسب ظرف عشق
پھر کسی سے بھی طلب گار وفا ہوتا نہیں
اک تخیل ہے کہ جس میں محو ہے میرا دماغ
اک تصور یہ جو آنکھوں سے جدا ہوتا نہیں
سعیٔ فہم ذات باری اور یہ محدود عقل
جس کا حاصل کچھ بھی حیرت کے سوا ہوتا نہیں
اشرف المخلوق کہتے ہیں اسی مجبور کو
جس کا کوئی کام بے دست دعا ہوتا نہیں
جتنے ارماں دل میں تھے مخمور سب موجود ہیں
ایک بھی تو اپنے مرکز سے جدا ہوتا نہیں
مخمور دہلوی