کس قدر سخت مہم تھی کہ جو سر کر آیا
لاش ہوتا تو ابھر آتا کی اک میں ہی کیا
سطح پر کوئی بھی پتھر نہ ابھر کر آیا
صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کا سفر کر آیا
چاند قدموں پہ پڑا مجھ کو بلاتا ہی رہا
میں ہی خود بام سے اپنے نہ اتر کر آیا
مجھ کو آنا ہی تھا اک روز حقیقت کے قریب
زندگی میں نہیں آیا تھا تو مر کر آیا
کیفی وجدانی