تری آرزو تو نکال دی ترا حوصلہ تو بڑھا دیا
گو ستم نے تیرے ہر اک طرح مجھے ناامید بنا دیا
یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نباہ کر کے دکھا دیا
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا
تجھے اب بھی میرے خلوص کا نہ یقین آئے تو کیا کروں
ترے گیسوؤں کو سنوار کر تجھے آئنہ بھی دکھا دیا
میری شاعری میں ترے سوا کوئی ماجرا ہے نہ مدعا
جو تری نظر کا فسانہ تھا وہ مری غزل نے سنا دیا
یہ غریب عاجز بے وطن یہ غبار خاطر انجمن
یہ خراب جس کے لئے ہوا اسی بے وفا نے بھلا دیا
کلیم عاجز