فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں ہو
خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جس خونِ جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے
کئی دلوں کی اُمیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں میں آ کے بھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ قحطِ عیش و مسرت، نہ غم کی ارزنی
کنارِ رحمت حق میں اسے سلاتی ہے
سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کو صبحِ بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
فیض احمد فیض