کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا دور، ہوا تیز، قریں کام نہنگ
وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا
عرصئہ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی
گرم رکھ آتشِ پیار سے سینہ اپنا
ساقیا رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفل
اور کچھ دیر اُٹھا رکھتے ہیں پینا اپنا
بیشِ قیمت ہیں یہ غم ہائے محبت، مت بھول
ظلمت یاس کو مت سونپ خزینہ اپنا
فیض احمد فیض