قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں
جو دل سے کہا ہے ، جو دل سے سُنا ہے
سب ان کو سُنانے کے دن آ رہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ لُٹنے لُٹانے کے دن آ رہے ہیں
ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی
نگاہیں چُرانے کے دن آ رہے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں
چلو فیض پھر سے کہیں دل لگائیں
سُنا ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں
فیض احمد فیض