حسن مجبورِ انتظار نہیں
تیری رنجش کی انتہا معلوم
حسرتوں کا مری شمار نہیں
اپنی نظریں بکھیر دے ساقی
مَے باندازئہ خمار نہیں
زیرِ لب ہے ابھی تبسمِ دوست
منتشر جلوئہ بہار نہیں
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
چارئہ انتظار کون کرے
تیری نفرت بھی اُستوار نہیں
فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
فیض احمد فیض