آنٹی مجھ کو ڈر لگتا ہے

آنٹی مجھ کو ڈر لگتا ہے
کل شب تھی اک بے چینی سی
نیند کی دیوی روٹھی سی تھی
میں نے کمرے کی کھڑکی کے
پٹ کھولے اور باہر دیکھا
تازہ سانس لیاہی تھا کہ
اک بچی کی نم سی سسکی
میرے کانوںسے ٹکرائی
میں نے اس کو پاس بلایا
پوچھابیٹا کیوں روتی ہو
اس کی سادہ سی آنکھوں میں
غم سے بھری اک ساون رت تھی
روتے روتے مجھ سے بولی
سامنے والے بنگلے میں نا
ماں جھاڑوبرتن کرتی ہے !
با پ جواری اور شرابی
ماں پر روز ستم کرتا ہے
اور اک میرا چھوٹا بھائی
تڑپ رہا ہے بیماری سے
اور اب ڈاکٹر انکل کی بھی
فیسیں بھرنا بھی تو ہمارے
بس کی بات نہیں ہے ،آنٹی !
ماں یہ کہہ کر مجھ سے گئی ہے
بیٹاتم بس یہیں رکو اب
آدھاگھنٹہ لگ جائے گا
تھوڑی دیر میں لوٹ آتی ہوں
سامنے والے بنگلے سے میں
کچھ پیسے لے کر آتی ہوں
اور اب گھنٹہ بیت چلا ہے
ماں اب تک ،مالک کے گھر سے
کیوں کر لوٹ نہیں پائی ہے
آنٹی مجھ کو ڈر لگتا ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *