پتھّروں کی بستی میں اک مکان شیشے کا

پتھّروں کی بستی میں اک مکان شیشے کا
اور کتنا اے ظالم امتحان شیشے کا
ساتھ دونوں مل کر اب اک جہاں بنائیں گے
ہو زمین پتھّر کی آسمان شیشے کا
کشتیاں ہواؤں کا رُخ کہاں سمجھتی ہیں
اور سمندروں میں بھی بادبان شیشے کا
پتھّروں کی بستی میں چند روز مہماں ہے
اس طرح نہ دل توڑو بے زبان شیشے کا
پل میں عکس بدلے گا پل میں روپ بدلے گا
کیا بھروسا ہے آخر میری جان شیشے کا
اب پتا چلا اس میں پتھّروں کی سازش تھی
اس لیے نہ بن پایا وہ مکان شیشے کا
کس لیے ربابؔ آخر تم سنورتی رہتی ہو
پل میں ٹوٹ جائے گا ہر گمان شیشے کا
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *