پھول دیتے رہنا تو
رسم اک پرانی ہے
میں نے اب یہ سوچا ہے
اس برس کے تحفے میں
جنم دن کے موقع پر
حسرتوں کے صحرا سے
پھول چن کے لاؤں گی
تیرے ساتھ جو گزرے
ان پرانی یادوں کو
ڈھال کر محبت میں
تجھ کو دان کر دوں گی
اپنی ساری خوشیاں میں
تیرے نام کر دوں گی
تو جو ساتھ ہو بھائی
تو ڈگر بھی کانٹوں کی
پھولوں کی حسیں وادی
تجھے سے دور ہونے پر
ہر خوشی پرائی ہے
اب کی بار سوچا ہے
تیرے جنم دن پر میں
تیرے سارے ہی غم میں
اپنے نام کر لوں گی
اپنی ساری خوشیاں میں
تیرے نام کر دوں گی
فوزیہ ربابؔ