میں سوالوں کو بھول جاتی ہوں
ساتھ تیرا رہے اندھیروں میں
میں اجالوں کو بھول جاتی ہوں
شعر کہنے کا جب ارادہ ہو
سب خیالوں کو بھول جاتی ہوں
زیر اس کو کروں یہ جب سوچا
سب حوالوں کو بھول جاتی ہوں
صرف کردار ہے نگاہوں میں
گوروں کالوں کو بھول جاتی ہوں
تو مرے سامنے جو آجائے
ساری چالوں کو بھول جاتی ہوں
کیا کہوں اس کی میں وجاہت پر
سب مثالوں کو بھول جاتی ہوں
فوزیہ ربابؔ