اپنی ہستی تِری چاہت میں مٹالی مولیٰ
لب ہیں خاموش رہی چشم سوالی مولیٰ
بھیجتی ہوں ترے محبوب کو صد بار درود
تجھ سے ملنے کی یہ تدبیر نکالی مولیٰ
کون ہے تیرے سوا جو مری جھولی بھر دے
نیکیوں سے تو مرے ہاتھ ہیں خالی مولیٰ
بادشاہا! مری تقدیر مدینہ کر دے
ان کی چاہت کی میں ادنیٰ سی سوالی مولیٰ
اب تو کہتا ہے مجھے سارا زمانہ تیرا
اپنی ہستی کی یہ پہچان بنالی مولیٰ
بڑھ گیا نورِ نظر صرف اسی کے باعث
خاک طیبہ کی جب آنکھوں میں سجالی مولیٰ
یہ کوئی عام سا در کب ہے کہ خالی لوٹوں
میں کہ بس تیرے ہی در کی ہوں سوالی مولیٰ
فوزیہ ربابؔ