دل میں تصویر تری آنکھ میں آثار ترے

دل میں تصویر تری آنکھ میں آثار ترے
زخم ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں بیمار ترے
اے شبِ رنج و الم دیکھ ذرا رحم تو کر
آہ کس کرب میں رہتے ہیں عزا دار ترے
زعم ہے تجھ کو اگر اپنے قبیلے پہ تو سُن
میرے قدموں میں گرے تھے کبھی سردار ترے
آج بازار میں لائی گئی جب تیری شبیہ
بھاگتے دوڑتے آ پہنچے خریدار ترے
سامنے کیوں تری عصمت پہ اٹھی ہے انگلی
کیوں یہ چرچے ہیں مسلسل پسِ دیوار ترے
ان کے دکھ درد کا تجھ سے بھی مداوا نہ ہوا
اپنی حالت پہ جو ہنستے رہے فنکار ترے
مجھ سے پھر چھٹتے ہوئے ابرِ الم نے یہ کہا
آج کی شام پلٹ آئیں گے غم خوار ترے
جانے کیا رنگ ربابؔ اب انھیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *