ذکر میرا کرتے ہیں دشنام سے

ذکر میرا کرتے ہیں دشنام سے
کس قدر جلتے ہیں میرے نام سے
پھر بہکنا اُس پہ لازم ہو گیا
جس نے پی تیرے گلابی جام سے
پھر حیا سے زرد ہی وہ پڑ گیا
ذکر تیرا جب ہوا گلفام سے
تیرا وعدہ تو وفا ہوتا نہیں
دل مگر یہ منتظر ہے شام سے
گردشِ ایّام میں بھی ساتھ ہیں
دوست واقف ہیں مرے انجام سے
ساقیا یہ جام و مینا دور رکھ
ربط ہم رکھتے نہیں ہیں جام سے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *