کیا خبر تھی ترا جانا نہیں، محشر ہوگا
مسئلہ میرا سبھی لوگ سمجھتے کب ہیں
حل تو الجھن کا فقط آپ سے مل کر ہوگا
ہجر کا فیصلہ یک دم ہی سنایا اس نے
اس نے سمجھا تھا مرا دل کوئی پتھر ہوگا
میرے ساحر کی یہ پہچان ہے اچھّے لوگو
اس کی آنکھوں سے نکلتا ہوا منتر ہوگا
شہر نے دیکھی ہوئی ہوں گی بہت بھیگی رتیں
پر ترے بعد جو ان آنکھوں کا منظر ہوگا!
کیا ضرورت مجھے کستوری، چنبیؐ لی کی بھلا
میرا کمرہ تری یادوں سے معطّر ہوگا
میں جسے سرسری تکتی تھی یہ کب جانتی تھی
اک وہی شخص مری آنکھوں کو ازبر ہوگا
میں نے اب نیند کو ہی چشم بدر کر ڈالا
خواب آیا بھی جو اس بار تو بے گھر ہوگا
وہ جو کہتا تھا سمندر سی ہیں تیری آنکھیں
دیکھ کر دشت مری آنکھوں میں ششدر ہوگا
اہلِ نفرت نے عجب بات کہی ہے اب کے
جو محبت کو نہ مانے وہی کافر ہوگا
تیری خاموش نگاہیں جو بیاں کر دیں گی
دیکھ لینا مجھے ہر لفظ وہ ازبر ہوگا
میری خوشیوں پہ بھی جو سرسری ہنس دیتا ہے
حال کیا اس کا مرے درد کو سن کر ہوگا
اب ربابؔ اس کو پرندوں سے بہت نفرت ہے
’’وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہوگا‘‘
جس کو کچھ تیرے سوا یاد نہ رہتا تھا ربابؔ
کیا خبر تھی کہ وہ خوش اتنا بھلا کر ہو گا
فوزیہ ربابؔ