پھر اس پہ درد کا پہرا ہے کیا کیا جائے
مرے وجود میں روشن تھا اک ادا سے جو
وہ عکس عکس میں بکھرا ہے کیا کیا جائے
ترے خیال سے روشن ہے زندگی میری
مرا وجود ہی صحرا ہے کیا کیا جائے
کسی بھی طور بغاوت میں کر نہیں سکتی
یہ عشق عرش سے اترا ہے کیا کیا جائے
حرم ہو دیر ہو گرجا ہو یا کلیسا ہو
ہر ایک جا اسے دیکھا ہے کیا کیا جائے
ہیں استعارے حسیں سارے اس کے اپنے ہی
دھنک پہن کے وہ نکھرا ہے کیا کیا جائے
ربابؔ دل میں ہمارے جو جل رہا ہے چراغ
وہ اپنی آنچ سے پگھلا ہے کیا کیا جائے
فوزیہ ربابؔ