چشم کا حسن ہے پلکوں کا اشارہ تو ہے
خواب سارے ہی اسی طشت میں لا کر رکھ دے
میری آنکھوں کے جزیروں کا کنارا تو ہے
میں نے سمجھا تھا قفس میں ہیں بچے چار ہی دن
زندگی مجھ کو ملی ہے جو دوبارہ تو ہے
روح بے چین رہا کرتی تھی تجھ سے پہلے
میری خاطر ہے جسے رب نے اتارا تو ہے
ہجر ایسا کہ افق رنگ مری آنکھوں میں
میں کہ اک ڈوبتا منظر ہوں سہارا تو ہے
شور میں بھی ہے جو خاموش ہمیشہ میں ہوں
خامشی میں مجھے جس نے ہے پکارا تو ہے
فوزیہ ربابؔ