قریۂ خواب بے امان ہے کیا

قریۂ خواب بے امان ہے کیا
کوئی آنکھوں میں میہمان ہے کیا
دھوپ چھٹتی نہیں کسی لمحہ
سر پہ ہر آن آسمان ہے کیا
میرے الفاظ کیوں لگیں میٹھے
میرے منھ میں تری زبان ہے کیا
کیا کہوں کچھ پتا نہی چلتا
میرے اور اُس کے درمیان ہے کیا
خود کو میں اُس کی ہی سمجھتی ہوں
ہائے! اس کو بھی یہ گمان ہے کیا
میری سانسیں وصول کرتا ہے
عشق تیرا کوئی لگان ہے کیا
ہے کہاں وہ جہان تم ہو جہاں
تیسرا بھی کوئی جہان ہے کیا
ہجر تیرا تو میں نے کاٹ لیا
اور بھی کوئی امتحان ہے کیا
تجھ سے کوئی گلہ نہیں کرتا
یہ مرا دل بھی بے زبان ہے کیا
جلوہ افروز وہ جہاں ہے ربابؔ
لامکاں میں کوئی مکان ہے کیا
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *