تو منصفوں نے کیا ہے عدالتوں کا لہو
خدا نے توبہ کی توفیق بخش دی مجھ کو
کہ میری آنکھوں سے نکلا ندامتوں کا لہو
یہ ایسی بوندیں ہیں جن پر کرم کا وعدہ ہے
ندامتوں کا ہو آنسو شہادتوں کا لہو
زمین بوس ہوئی ہیں عمارتیں وہ بھی
جنھیں پلایا گیا تھا ریاضتوں کا لہو
بغیر علم کے ملتی نہیں ہے سالاری
کہ اب تو کرنا ہے ہم کو جہالتوں کا لہو
کٹار جھوٹ کی چلتی ہے بے دریغ یہاں
کہ بوند بوند رسا ہے صداقتوں کا لہو
سنہرے خواب سجائے تمام عمر ربابؔ
وہ ایک پل میں ہی کر دے گا چاہتوں کا لہو
فوزیہ ربابؔ