لہو انسانیت کا ہے

لہو انسانیت کا ہے
میں اِک معصوم سی لڑکی
یہ دنیا جس کی نظروں میں
بہت ہی خوبصورت تھی
فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہر دن
بڑے ہی شوق سے ابنِ صفیؔ، پروین شاکرؔ کی
کتابیں پڑھتی رہتی تھی
جسے سب لوگ کہتے تھے
یہ ملکہ ہے خیالوں کی
ہمیشہ کھوئی رہتی ہے
نجانے سوچتی کیا ہے
وہ اک معصوم سی لڑکی
کہ جس کی گفتگو بھی اور
دعائیں بھی عجب سی تھیں
بطورِ خاص وہ لڑکی
تہجد میں کھڑی ہوکر
دعا اک مانگا کرتی تھی
خدایا تیرے بس میں کیا نہیں آخر
توٗ مالک دو جہانوں کا
مری بس ایک خواہش ہے
کہ میری ذات کو مجھ پر
خدایا منکشف کردے
مجھے حسّاس تو کردے
کہ اس دنیا کے ہر غم کو
میں اپنی روح تک محسوس کر پاؤں
اور آخرکار… جانے کب
دعائیں ہو گئیں پوری…
ہر اک احساس کو اب میں
بہت محسوس کرتی ہوں
انھیں حسّاس جذبوں کو
میں ڈھوتے ڈھوتے اب حیران رہتی ہوں
میں اب جب دیکھتی ہوں
قتل و غارت ہر طرف یارب
بہت تکلیف ہوتی ہے
اور اکثر ایسا ہوتا ہے
مری راتیں مری آنکھوں میں کٹتی ہیں
نجانے کون سے دکھ ہیں
مجھے سونے نہیں دیتے
مجھے رونے نہیں دیتے
مگر تکلیف اب مجھ کو
ہمیشہ ذات کی گہرائی تک محسوس ہوتی ہے
اب اکثر میرے احساسات
لہو میں ڈوبے رہتے ہیں
لہو کا رنگ ہے یکساں
لہو! انسانیت کا ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *