مانگتا ہے کوئی حساب ربابؔ

مانگتا ہے کوئی حساب ربابؔ
کردے آج اُس کو لاجواب ربابؔ
میں ہوں اک عشق کی کتاب ربابؔ
اور تو میرا انتساب ربابؔ
میری راہوں میں صرف خار ہی خار
ان کی راہوں میں بس گلاب ربابؔ
ہم نے مانا بہت حسین ہیں آپ
پھر بھی کرنا ہے اجتناب ربابؔ
کیا مری ذات کا قصور حضور
عشق میں کیا گنہ ثواب ربابؔ
ہر قدم پر ہے اک عجیب فریب
زندگی ہے فقط سراب ربابؔ
میں نے رکھّا گھڑے پہ ذات کا بوجھ
چیخنے کیوں لگا چناب ربابؔ
اس کی خاطر کوئی سویر نہ شام
جو پئے عشق کی شراب ربابؔ
چاہتوں کا وہ درس یاد ہے کیوں
کب تھا وہ شاملِ نصاب ربابؔ
بیٹیاں ہیں حضور، آنکھ کا نور
الجھا ریشم ہے یہ شباب ربابؔ
حسنِ سادہ تھا اشک بار کہ آج
کر گیا آئینہ حجاب ربابؔ
رہ گئی دل میں ایک شام کی یاد
بس گئے آنکھ میں سحاب ربابؔ
تیرے دل میں ابھر رہے ہیں جو
سب سوالوں کا ہے جواب ربابؔ
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *